حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،شام کے صدر بشار اسد نے اتوار کو تہران کا دورہ کیا جہاں انہوں نے صدر سید ابراہیم رئیسی سے ملاقات کے ساتھ ہی رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللھیان کے مطابق باہمی تعلقات اور تعاون کی نظر سے یہ سفر بہت اہم ہے جبکہ اس کے دیگر اہم پہلو بھی ہیں۔
وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللھیان: اس دورے کے ایک دوسرے پہلو کا تعلق خطے کے حالات سے ہے۔ یوکرین کے بحران سے پیدا ہونے والے حالات کا خطے پر جو اثر پڑا ہے، وہ بھی اس دورے میں دخیل ہے، اسی طرح مغربی ایشیا کے خطے میں ہمارے اطراف کے علاقوں میں جو حالات پیدا ہو رہے ہیں وہ بھی اس دورے کے اسباب میں شامل ہیں۔ صدر بشار اسد کے اس دورے کے جو پیغامات ہیں، ان میں سب سے پہلا پیغام یہ ہے کہ تہران اور دمشق کے رشتے بڑے نمایاں اور اٹوٹ ہیں۔ دونوں ملکوں کی قیادت میں جس عزم کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے وہ باہمی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے اور انھیں فروغ دینے پر مرکوز ہے۔ حالیہ مہینوں میں ان تعلقات نے ایک نئی شکل اختیار کر لی ہے۔
شام میں پائے جانے والے فوجی و سیکورٹی ماحول سے ہم روز بروزدور ہوتے چلے آئے ہیں اور اس وقت معیشت، تجارت اور سیاحت میں فروغ اور سائنس و ٹیکنالوجی میں تعاون ایسے موضوعات ہیں جو دونوں ملکوں کے ایجنڈوں میں شامل ہیں۔ اس سلسلے میں رہبر انقلاب اسلامی سمیت اعلی سطحی قیادت کے سامنے اہم مذاکرات ہوئے ہیں اور اس پر کافی تاکید کی گئي ہے۔ اسی طرح اس سلسلے میں دونوں ملکوں کے سربراہان مملکت کے درمیان بھی بات چیت ہوئي اور بہت سی باتوں پر اہم اتفاق رائے ہوا ہے۔ ایک بار پھر تمام دو طرفہ امور کا بغور جائزہ لیا گيا اور ان اقدامات کا بھی جائزہ لیا گيا جو مستقبل میں دونوں قوموں اور دونوں ملکوں کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے انجام دئے جانے ہیں۔
یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ، جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی نے بھی زور دے کر کہا، آج کا شام، گزشتہ کل کے شام سے الگ ہے۔ آج خطے میں شام کا ایک نمایاں مقام ہے۔ اگرچہ شام پر امریکا کی جانب سے سیزر نامی پابندیوں نے شام کے عوام کے لیے معاشی لحاظ سے سخت حالات پیدا کر دیے ہیں لیکن شام کے عوام نے جس طرح ہمہ گير دہشت گردانہ جنگ میں استقامت کے ذریعے فتح اور سربلندی حاصل کی ہے اسی طرح وہ اس معاشی جنگ میں بھی سرفرازی کے ساتھ فتح حاصل کریں گے۔
آج شام، عرب دنیا میں اور عالم اسلام میں صیہونی حکومت سے مقابلے کے محاذ میں ہراول دستے میں اور فرنٹ لائن پر ہے اور اس کی ایک نمایاں اور ممتاز پوزیشن ہے۔ میں زور دے کر کہنا چاہتا ہوں کی آج کی نشست کے ماحول سے جو بات سمجھ میں آ رہی تھی وہ یہ ہے کہ اس وقت مزاحمت و استقامت کا محاذ، اپنی سب سے اچھی اور سب سے برتر پوزیشن پر پہنچ چکا ہے اور اس خطے کے مستقبل میں صیہونیوں کا کوئي کردار نہیں ہوگا، اگرچہ کچھ گنے چنے ملکوں کے ساتھ صیہونی تعلقات کے قیام کا ڈرامہ کر رہے ہیں لیکن وہ دیکھیں گے کہ عالم اسلام، یہ علاقہ اور بہت سے علاقائي سربراہان مملکت اس چیز کی اجازت نہیں دیں گے کہ غاصب صیہونی، خطے میں کسی بھی طرح کا کوئي کردار ادا کر سکیں۔